ترک میڈیا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم فی الحال صبر کریں گے، جلد بازی کے نتائج متاثر کن نہیں ہوتے۔ اور اسی میں ہماری حکمت پوشیدہ ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پے در پے پسپائیوں کے بعد ایرانی وزارتِ خارجہ کا یہ بیان بھی کسی ہزیمت سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ روز ترکیا کے وزیر خارجہ حاقان فیدان نے بھی کہا تھا کہ ہم ایران کی جدو جہد کی قدر کرتے ہیں تاہم خطے کی صورتحال ایران کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے بعد حسن نصر اللہ کی موت نے خطے میں ایرانی موجودگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس اسرائیل سے لڑنے کی استعداد اور صلاحیت ہی نہیں ہے۔ وہ صبر ہی کرسکتا ہے۔
جبکہ لبنان سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما ڈاکٹر محمد علی الحسینی نے ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی موت کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔
انھوں نے العربیہ ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے پہلے حسن نصر اللہ کو خریدا، پھر اسے بیچ دیا، اور اب جو حسن نصر اللہ کی جگہ آئے گا، وہ بھی مارا جائے گا۔