ترکیا کے معروف رہنما اور صدر رجب طیب اردوغان کے شدید مخالف سمجھے جانے والے فتح اللہ گولن 83 سال کی عمر میں امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک ہسپتال میں وفات پا گئے۔ وہ 1999 سے امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
گولن پر 2016 میں ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام تھا، تاہم انہوں نے ہمیشہ اس کی تردید کی۔ ترک حکومت نے بغاوت کے بعد ان کی تحریک حزمت کو دہشتگرد تنظیم قرار دے کر سخت کریک ڈاؤن کیا اور ان کے حامیوں کو فوج، پولیس اور عدلیہ سمیت سرکاری اداروں سے نکال دیا۔
ہزاروں افراد گرفتار کرلیے اور ان کے زیر اہتمام چلنے والے متعدد ادارے بند کردیے۔ جس کی وجہ سے دونوں رہنماؤں (گولن اور اردوغان) کے درمیان محاذ آرائی مزید شدت اختیار کر گئی۔
فتح اللہ گولن نے 1960 کی دہائی میں ایک اسلامی مبلغ کے طور پر شہرت حاصل کی اور تعلیم کے فروغ کے ذریعے اپنی تحریک کو وسعت دی۔ ان کی تحریک نے ترکی کے علاوہ دنیا کے 140 ممالک میں بھی تعلیمی ادارے قائم کیے۔
گولن کے حامی انہیں معتدل اسلامی سوچ کا علمبردار سمجھتے تھے، لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم نے ریاستی اداروں میں خفیہ طور پر اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔
اردوغان اور گولن کے تعلقات ابتدا میں قریبی تھے اور دونوں نے مل کر سیکیولر نظام کے اثرات کو کمزور کیا۔ تاہم 2013 میں بدعنوانی کے الزامات کے بعد تعلقات خراب ہو گئے، اور اردوغان نے گولن تحریک پر "ریاست کے اندر ریاست” قائم کرنے کا الزام عائد کیا۔
2016 کی ناکام بغاوت کے بعد گولن کے حامیوں نے ملک چھوڑ دیا، کیونکہ حکومت نے بڑے پیمانے پر چھاپے مارے اور حزبِ اختلاف کے ارکان اور صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے تنقید کو دبانے کے لیے گولن تحریک کو قربانی کا بکرا بنایا۔
فتح اللہ گولن وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے رجب طیب اردوغان کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو کھل کر چیلنج کیا۔
فتح اللہ گولن نے اپنی آخری عمر جلاوطنی میں گزاری اور امریکہ میں مقیم رہتے ہوئے اپنے نظریات کے فروغ کی کوشش جاری رکھی۔