عرب کہاں ہیں، فلسطین کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ فقرہ ہے جو غزہ کے باسیوں کے علاوہ تقریباً ہر مسلمان پوچھتا ہے۔
اس سوال کا جواب کا واضح ہے کہ عرب اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑنا نہیں چاہتے۔ یا وہ کسی ایسی جنگ میں نہیں جانا چاہتے جس کی تباہی ان کے گھروں تک آئے۔
دوسری طرف فلسطینیوں اور قریبی عرب ممالک کے درمیان تعلقات بھی اتنے آسان نہیں رہے۔ لبنان کی خانہ جنگی اور فلسطینی عسکریت پسندوں اور اردنی بادشاہت کے درمیان جھڑپیں بعض اوقات خطے کی متضاد تاریخ کی یاد دلاتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسرائیل کے خلاف مصر، شام اور اردن جیسے ممالک نے جو جنگیں لڑی ہیں ان میں قومی مفادات کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا بھی دفاع کیا گیا۔
بی بی سی کی نامہ نگار پولا روساس کہتی ہیں کہ وہ جنگیں اب ماضی کی بات ہیں۔ مصر اور اردن نے دہائیوں قبل اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرلیے تھے اور اب مراکش، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں۔
جبکہ چند سال پہلے تک خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا۔
سعودی عرب بھی سات اکتوبر کو عزہ اور اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے قبل، فلسطین کے متعلق اپنی مخصوص شرائط ماننے کی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
سعودی شرائط میں فلسطین کو آزاد اور مستقل ریاست تسلیم کرنا پہلی شرط تھی، جس کا دار الحکومت مشرقی یروشلم یعنی مقبوضہ بیت المقدس ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب ملک اپنے مفادات کے ساتھ فلسطینیوں کی حمایت اور یکجہتی کی بات کرتے ہیں، اور ایسا نہیں کہ یہ جذبات حقیقی نہیں ہیں لیکن وہ اپنے قومی مفادات کو تباہ نہیں کروانا چاہتے۔
یہ بات واضح ہے کہ عرب دنیا میں عوامی رائے اسرائیل کے سخت خلاف ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ عرب ممالک کے عوام کے دل میں غزہ کے تباہ حال شہریوں کے لیے بہت ہمدردی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینیوں کے لیے کچھ زیادہ کریں۔
وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیں، اور کم از کم ردعمل دیتے ہوئے سفارت کاروں کو ان کے ممالک سے نکال دیا جائے۔
عرب ممالک کے ناقدین کہتے ہیں کہ عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کو کافی عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا۔ اس کی ایک وجہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کا ایران کی جانب واضح جھکاو بھی تھا۔
تمام عرب ممالک ایک جیسی پوزیشن کے حامل نہیں ہیں، بہت سے ممالک خود بھی خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے ہیں، جیسے یمن، شام یا عراق۔ شام اور عراق جو دو سیاسی نظریات کے حامل مرکزی اور طاقتور ملک تھے اور امریکہ کو چیلنج کر سکتے تھے آج منظرنامے سے غائب ہو چکے ہیں۔
لیبیا غائب ہو گیا، مصر اقتصادی عدم استحکام میں جبکہ سوڈان خانہ جنگی میں پھنسا ہوا ہے۔ عرب معاشرے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے بے بس محسوس کرتے ہیں
ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی مفادات کے علاوہ ایک اور چیز جس نے عرب ممالک کو مسئلہ فلسطین سے دور رہنے پر مجبور کیا وہ ہے، خطے میں ایرانی ملیشاؤں کا عروج۔
حماس کے اخوان المسلمین کے ساتھ تعلقات (جو خطے کی کئی حکومتوں کے ساتھ تصادم میں شامل ہے) کا مطلب ہے کہ خطے کی بہت سی حکومتیں حماس کو بھی فلسطینی تحریک کی بجائے اخوانی پراکسی سمجھتی ہیں۔
بہت سی عرب حکومتوں کا خیال ہے کہ حماس اور حزب اللہ خطے میں ایران کے ہتھیار ہیں اور یہ فلسطینیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے علاقائی امن کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے کی زیادہ تر نوجوان نسل فلسطینیوں سے ہمدردی رکھتی ہے لیکن وہ تنازعات کی وجوہات اور حقیقت کو نہیں جانتی۔