اتحادی دھڑے جو کبھی شام کے دیہی علاقوں کے پہاڑوں میں جلاوطن تھے اب وسطی حلب کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں، قدیم قلعے کے نیچے کھڑے ہو کر تصویریں کھینچ رہے ہیں اور صدر بشار الاسد کی حکومت کی علامتوں کو پھاڑ رہے ہیں۔
یہ ایک حیرت انگیز کارروائی ہے جس میں باغیوں (جلا وطن اتحادی دھڑوں) نے شمال مغربی شام کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب میں طاقت کا توازن ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گیا ہے، اور یہ کئی دہائیوں بعد اسد کے کنٹرول کے لیے سب سے سنگین چیلنج ہے۔
ہفتے کی رات، جنگجوؤں کی طرف سے شامی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے حما سے بشار کی فوج کو باہر کی طرف گہرائی میں دھکیلنے کی تصاویر سامنے آئیں، جن میں کفر نابل بھی شامل ہے، بشار کے مخالفوں کا گڑھ سمجھا جانے والا یہ قصبہ کئی برسوں سے بشار کے مکمل کنٹرول میں تھا۔
صرف چند گھنٹوں کے اندر، جلا وطن اتحادیوں نے ایک دوسرے شہر حما کے مرکز ویڈیو بنا کر دنیا کو حیران کردیا ہے۔ لیکن شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے فوجی ذرائع کے حوالے سے حما میں باغیوں (جلا وطن اتحادی دھڑوں) کی پیش قدمی کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ "ہماری مسلح افواج کے پاس ایک مضبوط دفاعی لائن موجود ہے”۔
شام کی سرکاری نیوز ایجنسی نے کہا کہ سرکاری فورسز روسی طیاروں کی مدد سے باغیوں کی پیش قدمی کو پسپا کر رہی ہیں، جب کہ اپوزیشن نیٹ ورکس نے ادلب کے دیہی علاقوں میں فضائی حملوں کی اطلاع دی ہے۔
جلا وطن اسلام پسند گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے جنگجوؤں نے ایک دن سے بھی کم وقت میں حلب کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ حزب اختلاف کے ٹیلی ویژن چینل حلب ٹوڈے کے ایک رپورٹر نے حکومت کی ایک مرکزی بلڈنگ میں وردی پوش عسکریت پسندوں کو دکھایا ہے۔
فوٹیج میں لوگوں کو شام کے حکمران کے بھائی باسل الاسد کے مجسمے کو توڑتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے، کچھ لوگ وہاں گولیاں چلاکر جشن بھی منا رہے تھے۔ ترکی کی انادول نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ شامی فورسز نے شہری ہوائی اڈے سمیت کئی اہم مقامات سے انخلا کرتے ہوئے اسے باغیوں (جلا وطن اتحادی دھڑوں) کے داخل ہونے کے بعد بند کر دیا ہے۔
HTS کی سربراہی میں فورسز نے دارالحکومت دمشق کی شاہراہ پر واقع ایک اسٹریٹجک مقام سراقیب کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے جنوب میں ایک اور اہم فوجی اڈے پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
ترکی کے حمایت یافتہ اتحادی دھڑوں نے حلب کے مشرق میں ایک فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے کی کوشش میں کرد عسکریت پسندوں اور شامی حکومتی فورسز کے خلاف ایک بڑا آپریشن شروع کیا ہے۔ علاقے کا ایک حصہ پہلے ہی اتحادی دھڑوں کے کنٹرول میں موجود ہے۔
اس بڑے حملے نے بشار الاسد کی افواج کے ساتھ ساتھ ماسکو اور تہران میں ان کے دیرینہ حامیوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔
امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن زید النہیان کے ساتھ رات گئے ایک فون کال میں بشار الاسد نے زور دیا کہ شام "اپنے استحکام اور علاقائی سالمیت کا دفاع جاری رکھے گا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ دمشق اپنے اتحادیوں کی مدد سے پیش قدمی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی آج اتوار کو ترکی جائیں گے، شاید وہ ترک حکام سے موجودہ تنازع میں بشار الاسد کے لیے حمایت طلب کریں گے۔ دوسری جانب روسی وزیر خارجہ نے اپنے ترک ہم منصب حاقان فیدان سے فون پر شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم نے کہا ہے کہ شامی فوج نے حلب میں باغیوں (جلا وطن اتحادی دھڑوں) سے لڑائی جاری رکھی ہوئی ہے، شہر کے ارد گرد روسی اور شامی فضائی حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
تسنیم نے کہا کہ اس بار باغی (اتحادی دھڑے) آسانی کے ساتھ حلب میں داخل ہوتے دکھائی دیے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ حلب پر اتنی آسانی سے قبضہ کر لیا جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ شہر کے اندر کوئی حقیقی دفاعی خطوط نہیں تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کھلا ہوا تھا۔
شامی فوج کے ترجمان نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کی بہت زیادہ تعداد اور جنگی محاذوں کی کثرت نے ہماری مسلح افواج کو قدرے مشکلات میں ڈالا ہے، ہم بہت جلد کم بیک کریں گے۔ شہریوں اور فوجیوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھا جائے گا اور جنگ کے لیے تیاری کی جائے گی۔
کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے حلب کی صورت حال کو "شام کی خودمختاری پر حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ہم شامی حکام کے حق میں ہیں، وہ علاقے میں امن قائم کریں”۔
یہ خانہ جنگی در اصل 2011 میں اُس وقت شروع ہوئی جب شام میں ایک عوامی تحریک نے اسد کی معزولی کا مطالبہ کیا۔ جو بعد میں ایک خونی جنگ میں تبدیل ہو گیا، دونوں دھڑے حلب کا کنٹرول چاہتے تھے۔ شامی حکومت کی افواج نے 2016 میں روسی فضائیہ اور ایرانی زمینی افواج کی مدد سے شہر پر قبضہ کر لیا۔
اس وقت حلب میں جلاوطن اتحادیوں کی اچانک فتح اور شام کے اہم شہری مراکز کے کنٹرول میں ڈرامائی تبدیلی، بشار الاسد کے لیے غیر متوقع چیلنج بن چکی ہے، یہی وہ چیلنج ہے جسے طویل عرصے سے بغاوت کہہ کر کچلنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
چند ہفتے پہلے تک ملک پر بشار الاسد کا کنٹرول اتنا محفوظ دکھائی دے رہا تھا کہ امارات اور سعودی عرب نے بھی دمشق کے ساتھ دوبارہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی آمادگی ظاہر کردی تھی۔ ترک حکام نے بھی بشار الاسد کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات شروع کردی تھی۔
تاہم ترک حکام، حلب کی حالیہ کارروائی میں ملوث ہونے کی تردید کر رہے ہیں۔ "ہم کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے جس سے ہجرت کی کوئی بڑی لہر پیدا ہو”۔ ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے کہا کہ لڑائی نے چند دنوں میں 14,000 افراد کو اندرونی طور پر بے گھر کردیا ہے۔
اتحادی دھڑوں کی اچانک کامیابی نے ان کی صلاحیت کو کافی نمایاں کردیا ہے۔ ان کے رہنما ابو محمد الجولانی کو امریکی محکمہ خارجہ نے 2013 میں دہشت گرد کے طور پر نامزد کیا تھا اور ان کے سر پر 10 ملین ڈالرز کا انعام رکھا گیا تھا لیکن وہ کئی سالوں سے شام کے صوبے اِدلب پر حکومت کر رہے ہیں۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ بشار حکومت اب شام میں کسی اور جگہ سے، کس قسم کی امداد حاصل کر سکتی ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ روس اب شام میں کتنی صلاحیت کا حامل رہ گیا ہے؟ کیونکہ یوکرین میں اس کی موجودہ جنگی مصروفیات کے پیش نظر، شام میں اس کی دلچسپی اور مشغولیت کم دکھائی دیتی ہے۔