"بشار الاسد پر شواہد کی بنیاد پر یہ مضبوط الزام ہے کہ انھوں نے پچھلے 10 سالوں میں اپنی حکومت اور نظام کی مضبوطی کے لیے 5 لاکھ سے زیادہ شامی شہریوں کو شہید کروایا ہے، وہ سب جنگجو نہیں تھے، ان کی اکثریت عام شہریوں پر مشتمل تھی، اس سلسلے میں بشار حکومت کو لبنان کی حزب اللہ اور ایرانی حکومت نے مسلکی تعلق کی بنیاد پر مدد بھی فراہم کی”
شام کی معتبر نیوز ایجنسی سیرئین آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کے نظام کے خلاف متحرک اتحادی تنظیموں نے ادلب کے بعد حلب کے اکثر حصوں کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے۔ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی خبروں اور ویڈیوز سے پتہ چلا ہے کہ بشار کی سرکاری فوج اور متحارب تنظیموں کے درمیان شدید جھرپیں جاری ہیں۔
اتحادی گروپوں کی طرف سے جاری کردہ ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کے لوگ فاتحانہ حلب میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ شکر کے سجدے ادا کر رہے ہیں اور حلب کو فتح کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ تین چار روز سے جاری جھڑپوں میں مسلح دھڑوں اور شامی فوج کے بہت سے ارکان موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں جن کی تعداد سینکڑوں میں بتلائی گئی ہے۔
رائیٹرز نے لکھا ہے کہ شامی حکام نے حلب ایئرپورٹ کو بند کر دیا اور تمام پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ترکیے کی مدد سے اتحادی گروہوں نے بشار حکومت کے خلاف پڑے پیمانے پر عسکری حملوں کا آغاز کیا ہے۔ تاہم ترکیا کے وزیر خارجہ نے اتحادی دھڑوں کی حمایت سے انکار کیا ہے۔
واضح رہے کہ شام کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے۔ دمشق، حلب، ادلب اور مضافاتی علاقے مٹی سے مل گئے ہیں۔ لاکھوں انسان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ جو بچ گئے ہیں وہ ادھر ادھر بھاگ گئے ہیں۔ ترکیا کا الزام ہے کہ شامی علاقوں سے کرد علیحدگی پسند، ترکیا میں حملے کروا رہے ہیں۔ دوسری طرف ترکیا پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ شام میں موجود مختلف سُنی دھڑوں کو بشار حکومت کے خلاف مدد فراہم کرکے کھڑا کر رہا ہے۔ کیا شام کے باقی ماندہ شہریوں پر کوئی نئی قیامت ٹوٹنے والی ہے؟
کچھ ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ بشار الاسد کی سرکاری فوج کے درجن بھر اہلکار، ایک سُنی نوجوان کو پکڑ کر اسے مذہبی بنیاد پر ٹارچر کر رہے ہیں۔ وہ اسے سیدنا امیر معاویہؓ اور ام المومنین سیدہ عائشہؓ صدیقہ کو برا بھلا کہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ خطے میں جاری جنگوں کا پس منظر، یہاں کے عوام میں شیعہ سُنی کی واضح تقسیم بھی ہے۔