امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو اپنے نئے صدارتی دور کا آغاز کریں گے۔ کہا جا رہا ہے اُن کے لیے بڑے چیلنجز میں سے ایک اہم چیلنج مشرق وسطی میں امن کا مستقل قیام ہے۔ بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ اسرائیل اور سعودی عرب کو قریب لانے کی کوشش کریں گے۔ شاید وہ وہیں سے کام شروع کریں گے جہاں انھوں نے اپنے پچھلے دورِ حکومت چھوڑا تھا لیکن اُن کے پاس 7 اکتوبر کے ازالے کے لیے کچھ ہونا بھی ضروری ہے۔
اب حالات کافی بدل چکے ہیں جسے ماضی میں "صدی کی ڈیل” کہا گیا تھا اس پر نفاذ ابھی ممکن ہو یا نہ ہو لیکن اسرائیل کو مسلم دنیا بالخصوص سعودی عرب کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اُن شرائط کو دوبارہ سے دیکھنا ہوگا جو سعودی قیادت نے 7 اکتوبر کے بعد فلسطین کی حق خود ارادیت کے حوالے سے کر رکھی ہیں۔ جن میں فلسطین کی حدود کا 1967ء کی پوزیشن پر بحال کیا جانا اور مشرقی یروشلم کو اس کا دار الحکومت تسلیم کرنا، شامل ہیں۔
ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ کی پٹی میں ایک سال سے زائد عرصے سے جنگ جاری ہے اور چار سال پہلے کے مقابلے میں امریکہ سمیت دنیا کو ایک مختلف حقیقت کا سامنا ہے۔ اس دوران قدرتی آفات سے زیادہ انسانی آفتوں نے مشرق وسطی کی صورتحال کو باقی دنیا سے کافی زیادہ متاثر کیا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ اپنی پہلی اسائنمنٹ یعنی "مڈل ایسٹ” کو کیسے سرانجام دیتے ہیں، اسے دیکھنے کے لیے ابھی کچھ انتظار کرنا ہوگا۔
اپنے پچھلے دورِ حکومت میں صدر ٹرمپ نے جو "صدی کی ڈیل” کے نام سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا، فلسطینی عوام ان کے اس منصوبے سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ اسے بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر فلسطینیوں کے حقوق سے متصادم سمجھتے تھے۔ خاص طور پر سرحدوں، پناہ گزینوں اور یروشلم کے مسائل کے حوالے سے انھوں نے اس منصوبے کو رد کردیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اس منصوبے کو فلسطینیوں کے لیے ایک آخری موقع قرار دیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے پاس نیا کیا ہے؟
واضح رہے کہ "صدی کی ڈیل” سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کافی خوش تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خطے میں دیر پا امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور وہ اس موقع کو ضائع کریں گے، لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہوچکی ہے۔ نیتن یاہو کو عالمی طور پر تنقید اور کیسز کا سامنا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک اور عالمی عدالت انصاف نے انھیں مجرم قرار دے رکھا ہے۔ تاہم امریکی انتظامیہ اسرائیل اور نیتن یاہو کا کھلے بندوں دفاع کرتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داری قرار دیتی ہے۔
دوسری طرف اسرائیل، غزہ کی پٹی کے انتہائی شمال میں ایک نئی "ملٹری ڈیوائڈنگ لائن” بنا رہا ہے۔ بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں نئی یہودی بستیوں کو قائم کیا جائے گا۔ اسرائیل شمالی غزہ خالی نہیں کرے گا تو صدر ٹرمپ "ڈیل آف دی سنچری 2” کو حل کے طور پر کیسے پیش کر سکتے ہیں؟ یہاں اس قسم کی اور بہت سی باریکیاں پیدا ہوچکی ہیں کہ اب یہ منصوبہ آگے بڑھانا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ مکنہ نئے مسودے میں فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کو حتمی طور پر ختم کر کے انھیں کچھ اقتصادی حقوق دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
خطے کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ میں ٹرمپ کا رجحان صہیونی اکثریتی گروہوں کی طرف ہی رہے گا۔ وہ ماضی میں بھی اسی قسم کا ذہن رکھتے تھے۔ وہ اپنے تئیں جس شے کو درست سمجھیں گے اُسی کو نیا پلان اور منصوبہ قرار دے کر، عرب ممالک کو اس پر قائل کریں گے۔ تاہم اُنھیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اب حالات اُن کے پہلے دور سے کافی مختلف ہیں۔ خطے کے زمینی حالات اور بگاڑ سے علاقائی اور عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کسی کو دبا کر، کسی دوسرے کو بسا دیں دیں گے۔ یہ مستقل اور دیرپا حل نہیں ہو سکے گا۔
دو ریاستی حل ایک ایسا آپشن ہے جو ابھی بھی میز پر ہے۔ اسے عرب ممالک بھی تسلیم کرچکے ہیں کیونکہ یہ سب کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کے اصول کو متعین کرتا ہے۔ عرب مبصرین کا کہنا ہے کہ جو دو ریاستی حل کو تسلیم نہیں کرتا، گویا وہ فلسطین پر سے اسرائیل کو کبھی نہیں ہٹانا چاہتا۔ در اصل دو ریاستی حل وہ بنیاد ہو سکتا ہے جس سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور اسے تسلیم کرنے کے معاملے پر نئے سعودی-امریکی مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔
عرب مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے امریکہ اور اسرائیل کو سعودی عرب کی وہ شرائط ماننا پڑیں گی جن میں فلسطین کی حدود کو 1967ء کی حدود پر رکھنا اور مشرقی بیت المقدس کو اس کا دار الحکومت ماننا، شامل ہیں۔ واضح رہے کہ "صدی کی ڈیل” میں ان دونوں شرائط کو بعینہ نہیں مانا گیا تھا۔ جبکہ 1967ء میں مغربی کناروں پر کیے گئے اسرائیلی قبضے کو بھی اسرائیل اور امریکہ نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ دونوں ممالک کے ذمہ داران، مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں اور وہاں بعد میں قائم کی گئی بستیوں کو مستقل یہودی آبادی اور اسرائیل کا حق قرار دیتے آئے ہیں۔
سعودی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی و سیاسی تعلقات کی بحالی صرف ان دو ممالک کے درمیان ہی نہیں بلکہ یہ اسلامی دنیا اور یہودیت کے درمیان تعلقات کی بحالی ہے، لہذا یہ صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اہمیت کا حامل مسئلہ بھی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل پر مضبوط مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ سعودی عرب کی شرائط پر مسئلہ فلسطین کو حل کروا دے تو سعودی عرب نہ صرف اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر سکتا بلکہ باقی اسلامی دنیا کے ساتھ بھی اس کے روابط بحال کروا سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ 20 جنوری 2025ء کو اقتدار سنبھالنے والے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیا نئے فیصلے کرتے ہیں اور مڈل ایسٹ کے حوالے سے کیا پلان دیتے ہیں۔ فی الحال تو سعودی عرب نے نہ صرف غزہ اور لبنان میں اسرائیلی کاروائیوں کو ظالمانہ کاروائیاں کہا ہے بلکہ اس کے ایران پر حملوں کی بھی شدید مذمت کی ہے۔ اور یہ دونوں اعلانات سعودی ولی عہد نے ٹرمپ کے حالیہ الیکش جیتنے کے بعد، اپنے ایک خطاب میں کیے ہیں۔ شاید اب کی بار صدر ٹرمپ کے لیے مشرق وسطی کا محاذ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ خطے کے حالات کافی بدل چکے ہیں۔