حال ہی میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک عرب اسلامی سربراہی اجلاس منعقد ہوا جس کی قیادت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کی۔
اس اجلاس میں 50 سے زائد اسلامی ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ یہ خوش ائند بات تھی کہ مسلم امہ کے اہم ترین مسئلے پر، تمام اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے۔
جن ممالک کے سعودی عرب کے ساتھ اختلافات تھے ان اختلافات کو پس پشت ڈال کر انھیں بھی اس اہم قضیہ پر مدعو کیا گیا۔
اس کانفرنس کے صدارتی خطاب میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ن نے کہا کہ ہم 1967 کی سرحدوں پر بیت المقدس کو دار الحکومت مانتے ہوئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مشترکہ کوششیں جاری جاری رکھیں گے اور فلسطینی اتھارٹی کے کردار کو کم کرنے کی کوششوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف کی جانے والی نسل کشی کی مذمت کی اور اقوام متحدہ کے امدادی ادارے(UNRWA) کو امداد فراہم کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کی مخالفت کی۔
انہوں نے لبنان کی سرزمین پر کیے جانے والے اسرائیلی فوجی آپریشنز اور لبنان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایرانی علاقوں پر اسرائیلی حملوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔
ان تمام جہود کے باوجود کچھ عناصر اس قدر منافقت پر اتر آتے ہیں کہ انھیں سعودی عرب کی تمام نیکیاں، سیئات ہی نظر آتی ہیں۔ سعودی عرب کی دشمنی میں ان کو اچھے اور مستحسن کام بھی گوارا نہیں ہوتے۔
یہ عناصر خود اپنے ممالک میں چھوٹی چھوٹی جلسیاں اور احتجاج کر کے لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم فلسطین کے بہت بڑے خیر خواہ ہیں۔ ان کے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے ذرا بھی فلسطین اور اہل فلسطین کو فائدہ نہیں ہوتا۔ اصل وجہ کیا ہے کہ یہ عناصر سعودی عرب کے خلاف آئے روز محاذ ارائی کا بازار سرگرم کیوں گرم رکھتے ہیں؟
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے وجود سے اسلام کا ٹھوس اور مضبوط نمائندہ ہے اور منہج سلف کا سب سے بڑا پاسدار اور حامی ہے۔ قرآن وحدیث کی ترویج اور اس کی نشرو اشاعت میں اس کا بے مثال عالمی کردار رہا ہے۔ منہج سلف کی پاسداری نے عالمی سطح پر سعودی عرب کو ہر قسم کے دشمن عطا کیے ہیں۔
غیروں کے ساتھ ساتھ اہل اسلام کا ایک بڑا طبقہ صرف اسی وجہ سے سعودی عرب کا دشمن بنا ہوا ہے۔ یہ دشمنی عقیدہ و منہج کی دشمنی ہے۔ عذر لاکھ جمع کر لیے جائیں اصل سبب یہی ہے۔ یہ دشمنی، یہ نفرت، یہ بغض اور یہ حسد اس معیار کو پہنچا ہوا ہے کہ اگر سعودی عرب سے کوئی غلطی سرزد ہو بھی جائے تو انھیں خوشی ہوتی ہے کیونکہ انھیں نقد سے بڑھ کر دو چار مزید بہتان باندھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ طنز و تشنیع کا نیا دروازہ کھل جاتا ہے۔
اور اگر سعودی عرب کوئی نیکی یا بھلائی کرے تو بھی انھیں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ اس سے اس کا قد اونچا ہوتا ہے اور نیک نامی بڑھتی ہے، سرخروئی نصیب ہوتی ہے ۔ لھذا یہ بھی قبول نہیں ہے۔
سعودی عرب نے جس قدر فلسطینی مسئلہ کو سپورٹ کیا ہے اور اس کی مدد کی ہے، موجودہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ صرف سعودی عرب ہی وہ واحد ملک ہے جو خلوص نیت سے یہ چاہتا ہے کہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل ہو اور فلسطین ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنا مستقبل دیکھے۔
بین الاقوامی مسائل کی فہرست میں یہ مسئلہ سعودی عرب کی بدولت ہمیشہ پہلے نمبر پر رہا ہے۔ عربوں نے ہی فلسطین کے لیے حقیقی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے اس مسئلے پر اپنا بہت کچھ کھویا اور گنوایا ہے۔
ان بے لوث محبت کرنے والوں کو اللہ کی رضا کے سوا کسی اور چیز کی خواہش بھی نہیں ہے اور بدلے میں ان کو ایک چیز ملی ہے وہ یہ بدنامی ہے، ایسی بدنامی جو ان کے نام سے جوڑ دی گئی ہے، یہ انہیں کسی شریف انسان سے نہیں ملی۔ اس بدنامی کے پیچھے بھی ایک لمبی سازش اور دائمی حسد ہے۔
اسرائیل کے وجود سے لے کر اب تک کی تمام جنگیں باقاعدہ عربوں نے ہی لڑی ہیں۔ اپنا بہت کچھ قربان کیا اور گنوایا ہے۔ 1973 کی وہ ایک اکلوتی جنگ جو اسرائیل سے لڑی اور جیتی گئی وہ بھی عربوں نے ہی لڑی تھی۔
سعودی عرب نے اس کی خصوصی پلاننگ کی، شاہ فیصل جیسا مدبر اور سعودی فرمانروا اس جنگ کا روح رواں تھا۔ بعد میں اسی جنگ کی قیمت سعودی عرب نے شاہ فیصل رحمہ اللہ جیسے عظیم قائد مدبر حکمراں کے جان جانے کی صورت میں ادا کی۔
اس کے برعکس جو عناصر سعودی عرب کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور بدنامیاں کرتے ہیں یہ ایسے ملکوں اور تحریکوں کی تعریفیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے جنہوں نے تاریخ اسلام میں کبھی بھی مسلمانوں کا کوئی فائدہ نہیں کیا بلکہ الٹا انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ سازش کیں اور نقصان پہنچایا۔
ان تحریکوں اور ان کے نام نہاد خیر خواہوں کو دیکھا جائے تو جتنا نقصان انہوں نے پہنچایا ہے اتنا تو یہودیوں نے بھی مسلمانوں کو نہیں پہچایا ہوگا۔ صرف پچھلے 15 سالوں میں دو کروڑ اہل سنت کو قتل کیا اور بے گھر کیا گیا۔ عراق ،شام اور لیبیا جیسے ممالک کے حال سے پوری دنیا واقف ہے۔
یہ طبقہ آج ہیرو گیری کر رہا ہے جبکہ سعودی عرب جس نے ہمیشہ اسلام کے لیے بے نظیر خدمات سرانجام دی ہیں اسے مجرم بنایا ہوا ہے۔
جب جب سعودی عرب نے فلسطینی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کوشش کی تو یہی عناصر اس کے منصوبے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ چشم کشا حقائق ہیں جن کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
ان کو جاننے کے لیے حقیقت پسند بننا پڑے گا، نفس کی قبا چاک کرنا پڑے گی، یہ ایسے حقائق ہیں جو نہ صرف نفاق کے ہر لبادے کو اتار کر ہر منافق کو بے نقاب کر دیتے ہیں بلکہ بہت اچھی طرح یہ بھی ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے آلہ کار کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔
یہ مجوسیوں کے اشاروں پر ناچنے والا ٹولہ کبھی بھی فلسطین اوراہل فلسطین کا خیر خواہ اور مخلص نہیں بن سکتا۔
سعودی عرب کے خلاف ان کی سازش اور طرح طرح کے پروپیگنڈے، سعودی عرب کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ایک عربی ضرب المثل ہے” الذئب ما يحسب طقاع النعجه!