آج کل پاکستان میں "لیک ویڈیو” کا ٹرینڈ گرم ہے۔ پہلے فیک نیوز ایک ایشو ہوتا تھا، وہ پیچھے رہ گیا ہے۔ اب آپ کسی لڑکی کے نام کے ساتھ ایک بولڈ سی تصویر لگا کر لکھ دیں "فلاں ثک ٹاکر کی ویڈیو لیک ہوگئی”.
پھر آپ دیکھیں کہ وہ نام اور وہ لڑکی کیسے کیسے اور کہاں کہاں سرچ کی جاتی ہے۔ دیوانے کیسے لپکتے ہیں اور کیسے ڈھونڈھتے ہیں اس دوشیزہ کو۔
اب تک تقریباً 20 سے زائد ٹک ٹاکر لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز لیک ہو کر وائرل ہو چکی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ ویڈیوز واقعی حادثاتی طور پر لیک ہوتی ہیں یا کچھ اور معاملہ ہے؟ یہ ٹک ٹاکرز، جو دن رات ویڈیوز اپلوڈ کرتی ہیں، کیا انہیں پرائیویسی کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا؟
کوئی عام سا شخص بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ خود کیا جاتا ہے۔ پچھلے ایک سال کے واقعات پر نظر ڈالیں تو ایسی ویڈیوز لیک کرنے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے پیسہ اور ویوز۔
عروبہ جتوئی، امسا خان، حریم شاہ، صندل خٹک، جنت مرزا، علیزے شاہ، رابی پیرزادہ، مناہل ملک، نمرہ علی، اور مہک نور ان سب مشہور ٹک ٹاکرر کی نازیبا ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد ان کے فالورز میں لاکھوں کا اضافہ ہوا ہے۔
در اصل یہ ٹک ٹاکرز سمجھتی ہیں کہ ان کی پرانی چیزیں لوگوں کے لیے بورنگ ہوتی جا رہی ہیں، جب یہ اپنے ڈانس، روزمرہ کی باتوں اور دیگر چیزوں سے لوگوں کو متاثر نہیں کرپاتیں تو انھیں کچھ نیا دکھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ایسے کلپ جو ایک منٹ سے بھی کم وقت کے ہوتے ہیں انھیں وہ ویوز اور فالورز دے جاتے ہیں جو ویسے انھیں شاید مہینوں میں بھی نہ مل سکیں۔
اس سے ان کی کمائی بھی اچھی ہو جاتی ہے اور مشہوری بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ باقی ان کے لیے شرم یا عزت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، ان کے لیے سب سے اہم چیز پیسہ ہوتا ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید تیز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ اب پبلک پلیسز پر مزید نازیبا لباس میں نظر آئیں گی۔ کیونکہ نہ تو انھیں کوئی روکنے ٹوکنے والا ہے اور نہ ہی انھیں خود کوئی شرم و حیا لازم ہے۔
یہ ایسی نازیبا ویڈیوز بنواتی بھی خود ہیں اور انھیں لیک بھی خود ہی کرواتی ہیں۔ اور ان ویڈیوز کا سب سے زیادہ فائدہ بھی ویوز اور انکم کی صورت میں انہی کو ہوتا ہے۔ یہ ایک سسٹم، سٹنٹ اور دھندہ بن چکا ہے۔