یوں تو سعودی چیف آف آرمی سٹاف کے دورہ ایران کو بھی خاصی اہمیت دی جارہی تھی لیکن سعودی ولی عہد کے اسرائیل کے خلاف بیان اور ایران کی کھلم کھلا حمایت نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سوچ بچار کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔جیسے دور کھڑے سعودی ولی کہہ رہے ہوں "سوچو اور سوچو”۔
عالمی صورتحال جو بھی صورت اختیار کرے لیکن سعودی حکمران عالمی کرتا دھرتا لوگوں کی سوچ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ کہاں ایران کے ساتھ عقیدے اور علاقائی تناؤ میں گزرے صدہا سال اور کہاں تنہا کھڑے ایران کی اچانک بے لچک حمایت، در اصل سعودیوں نے دنیا کو بتلایا ہے کہ جہاں ہم کھڑے ہوں قطار وہیں سے شروع ہوتی ہے۔
سعودی ترجمانوں نے یوں تو واضح کردیا ہے کہ سعودی آرمی چیف کا دورہ ایران صرف فوجی اور تکنیکی نوعیت کا تھا تاہم اس دورے کے ساتھ ہی ایرانی صدر مسعود پزکشیان کا امیر محمد بن سلمان کو فون اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال اور بعد ازاں ریاض کی عرب اسلامی کانفرنس میں سعودی ولی عہد کی طرف سے ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت نے ایک دم دنیا کو چونکا دیا ہے۔
پوری دنیا کا میڈیا اس ساری صورتحال کو غیر معمولی قرار دے رہا ہے۔ سعودی وزارت دفاع نے اسے معمول کی کاروائی اور سفارتی حمایت قرار دیا ہے۔ تاہم واقفانِ حال جانتے ہیں کہ یہ کاروائی معمول کی کاروائی سے اگلے درجے کی کاروائی ہے۔ جسے صرف کاروائی کہنا بھی ناکافی ہے۔
کہا جا رہا ہے شاید ایران اور سعودی عرب یمن میں قربت بڑھانا چاہتے جہاں موجود حوثی ملیشیا کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور حکومت کو سعودی حمایت حاصل ہے۔ تاہم یہ بات حتمی نہیں ہے کہ سعودی عرب صرف یمن میں ایران کے ساتھ مفاہمت کے لیے اسرائیل کے خلاف اتنا بڑا بیان دے دے۔
دوسری طرف امریکہ میں بھی خاطر خواہ تبدیلی آچکی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے مقبول لیڈر ٹرمپ برسر اقتدار آچکے ہیں اور وہ اسرائیل کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں سعودی قیادت کا ایران کے ساتھ کھڑے ہونا، سعودی قیادت کی مضبوطی اور خود انحصاری پر دلالت کرتا ہے۔
سعودی عرب کی قیادت نے امریکہ سمیت دنیا کی تمام معاشی و عسکری طاقتوں کو پیغام دے دیا ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کرسکتے ہیں۔ ہمارا ملک ہماری مرضی
سعودی ولی عہد نے فلسطین اور لبنان کی حمایت میں بلائی گئی کانفرنس میں پہلی بار واضح اور واشگاف الفاظ میں اسرائیلی کاروائیوں کو نسل کشی اور دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کے ایران پر حملوں کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ باتیں تہران اور ریاض کے درمیان بہتر تعلقات کی واضح علامات ہیں۔
سعودی وزارت دفاع نے کچھ روز قبل یہ بیان بھی جاری کیا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی دوست ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں جن میں ایران بھی شامل ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے اسرائیل کے مطابق وہ علاقائی سلامتی کے لیے بحیرہ احمر میں امریکا کی سربراہی میں ایک اتحاد بنانے جا رہا ہے جس میں اسرائیل، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہوں گے۔ ایسے وقت میں سعودی عرب کا اچانک ایران کی حمایت میں کھڑے ہوجانا، اسرائیل کے لیے واضح پیغام ہے کہ نہیں، شاید اب نہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کافی قربتیں پیدا ہوئی ہیں۔ دوسری عالمی مبصرین کا کہنا کہ سعودی ولی عہد اپنے اوپر امریکی سرپرستی کی چھاپ نہیں لگوانا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں جہاں سعودی عرب کی بہتری ہو ہمیں وہاں کھڑا ہونا چاہیے۔
سعودی عرب علاقائی طور پر امریکہ کے ساتھ کسی طرح کی محاذ آرائی یا اختلاف میں پڑے بغیر ایران کے ساتھ مفاہمت میں رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری، تارِ عنکبوت پر چلنے کے مترادف ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے۔
تاہم خاموش رہنے اور ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کو نظر انداز کرنے کی بجائے سعودی عرب اب کھل کر اسرائیل کے خلاف، ایران کے حق میں سامنے آیا ہے۔ یہ کام دراصل سعودی عرب کے چہرے کو از سر نو تعمیر کرنے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی پوزیشن کو نئے سرے سے متعین کرنے کی وسیع کوشش ہے۔
اس تقریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امیر محمد بن سلمان اب ایران کے خلاف توازن قائم کرنے کے لیے اسرائیل یا امریکہ سے قربت کی تلاش میں نہیں ہیں۔