برکس گروپ کی تشکیل کا مبینہ مقصد، دنیا کی سیاست اور قیادت پر کسی ایک یا چند مخصوص ملکوں کی چودھراہٹ کی بجائے، ابھرتی ہوئی تمام معاشی طاقتوں کو اہم فیصلوں میں یکساں طور پر کلیدی کردار دلوانا ہے۔
2006ء برازیل، روس، بھارت اور چین نے ملکر یہ گروپ بنایا تھا جسے شروع میں "برک” کہا جاتا تھا۔ 2010ء میں ساؤتھ افریقہ بھی اس گروپ میں شامل ہوگیا۔ ان ممالک کے انگریزی ہجوں کی مناسبت سے اس کا نام "برکس” پڑ گیا۔
واضح لفظوں میں کہا جائے تو یہ گروپ روس اور چین کی قیادت میں اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ دنیا کے باقی ترقی کرتے ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر، امریکہ اور یورپ کی معاشی اور سیاسی طاقت کو چیلنج کیا جا سکے۔
برکس میں کون سے نئے ممالک شامل ہوئے ہیں؟
مصر، ایتھوپیا، ایران، ترکیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) یکم جنوری 2024 سے برکس کی رکنیت حاصل کرچکے ہیں۔
جنوری کے وسط میں ایک سعودی وزیر نے کہا تھا کہ وہ برکس میں شامل نہیں ہوں گے تاہم اب سے کچھ دیر پہلے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان برکس کے حالیہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے، رکن ملک کی حیثیت سے روس کے شہر کازان پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے برکس کے اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی تاہم آج انھوں نے ریاض میں امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹوںی بلنکن کا استقبال کیا اور ان سے ملاقات کی۔
کیا سعودی عرب امریکہ کو چھوڑ دے گا؟
عالمی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ہر شکل میں بحال رکھتے ہوئے، برکس ممالک کی طرف سے شمولیت کی دعوت کا احترام بھی قائم رکھے گا۔ اور یہی اسٹریٹجی یو اے ای اور مصر بھی اپنائیں گے۔
واضح رہے کہ ایران، ترکیا اور مصر کے صدور جبکہ متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم بھی رکن ممالک کی حیثیت سے برکس کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روس کے شہر کازان پہنچ چکے ہیں۔
ارجنٹینا کو بھی گروپ میں شمولیت کی دعوت دی جا چکی ہے تاہم وہ ابھی اس میں شامل نہیں ہوا۔ گروپ کے ممبران ممالک باری باری اس کے سالانہ اجلاس کی صدارت اور میزبانی کرتے ہیں۔ امسال اس کی صدارت روس کے پاس ہے۔
برکس کے بانی ممالک کیا چاہتے ہیں؟
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ برکس کی فاؤنڈیشن میں بڑی عالمی طاقتیں شامل ہیں، جیسے چین، روس، جنوبی افریقہ اور برازیل، جبکہ رکن ممالک میں اب سعودی عرب، ایران، ترکیا، مصر اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ برکس کے توسیع شدہ گروپ کی مشترکہ آبادی تقریباً 4.1 بلین ہے جو کہ دنیا کی 52% آبادی بنتی ہے جبکہ ان کے پاس مشترکہ طور پر دنیا کی 55% فیصد معیشت کا کنٹرول ہے۔
برکس ممالک کا کہنا ہے کہ ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور برکس کے دیگر ممالک ملکر دنیا کا 59% خام تیل پیدا کرتے ہیں جبکہ یورپی ممالک اہم عالمی اداروں اور بین الاقوامی مالیاتی نظاموں پر مفت میں قابض ہوئے بیٹھے ہیں۔ یعنی دوسروں کی دولت پر اپنی چودھراہٹ قائم کیے ہوئے ہیں۔
برکس ممالک کا خیال ہے کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کو اپنی ایک الگ شناخت اور نمائندگی بنانا ہوگی۔ اس سلسلے میں برکس ممالک نے 2014ء سے ترقی پزیر ممالک کو قرض دینے کے لیے ایک نیا ترقیاتی بینک بھی قائم کر رکھا ہے۔
2022 کے آخر تک، اس بینک نے مختلف ممالک کو نئی سڑکوں، پلوں، ریلوے لائنوں اور پانی کی فراہمی کے منصوبوں کے لیے تقریباً 32 بلین ڈالرز فراہم کیے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برکس کے ذریعے چین اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گروپ میں موجود دوسری بڑی عالمی طاقت روس کا بھی ایک مختلف مقصد ہے۔
لندن میں قائم تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس کے ایک سینیئر ریسرچر کریون بٹلر کہتے ہیں، روس برکس کو مغرب کے خلاف اپنی لڑائی کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے اور یوکرین پر حملے کے بعد اپنی عالمی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے اسے استعمال کر رہا ہے۔
ڈالر کی جگہ برکس کرنسی کی تجویز
تمام دنیا میں بین الاقوامی تجارت کے لیے امریکی ڈالر کا استعمال کیا جاتا ہے، برازیل اور روس نے ڈالر کے غلبے کو کم کرنے کے لیے برکس کرنسی بنانے کا مشورہ دیا ہے تاہم ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ برکس ممالک کے لیے مشترکہ کرنسی بنانا ناقابل عمل ہوگا کیونکہ ان کی آپس کی معیشتیں بہت مختلف ہیں، تاہم یہ ممکن ہے کہ یہ ممالک مستقبل میں بین الاقوامی تجارتی ادائیگیوں کے لیے کوئی نئی کرنسی ایجاد کرلی جائے۔
کیا برکس G20 کا حریف ہے؟
G20 گروپ 1999 میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان عالمی مسائل پر بات چیت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تاہم برکس گروپ میں بہت سے ایسے ممالک بھی شامل ہیں جو G20 میں بھی شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں گروپس میں مخالفت کا کوئی اندیشہ یا تاثر درست نہیں ہے مستقبل میں دونوں ملکر بھی کام کر سکتے ہیں۔
روس 2024 برکس کا استعمال کیسے کر رہا ہے؟
روس کے شہر کازان میں 2024ء کے برکس ممالک کا سربراہی اجلاس جاری ہے، اس اجلاس کی صدارت روس کر رہا ہے۔
روسی صدر در ولادیمیر پوٹن نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام میں برکس کے کردار کو بڑھایا جائے یعنی اس نظام پر صرف امریکہ اور یورپ کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔
انٹرنیشنل بینکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے اور برکس کرنسیوں کے استعمال کو وسعت دی جائے۔
روس کے شہر کازان میں جاری برکس سربراہی سمٹ 2024ء میں متحدہ عرب امارات، ترکیا، سعودی عرب، بھارت اور ایران کی شرکت نے عالمی طور پر روس کے امیج کو بہتر کردیا ہے۔
اور روس نے اپنے متعلق یہ تاثر دے دیا ہے کہ یوکرین پر حملے کے باوجود یورپ اور امریکہ کے علاوہ باقی دنیا میں اس کے دوست بھی ہیں اور اتحادی بھی۔