پاکستان میں ایک بار پھر انٹرنیشنل مہمانوں کا تانتا بندھ گیا ہے۔ ایک بڑی شخصیت آتی ہے تو دوسری جاتی ہے۔ اب تو باقاعدہ درجن کے قریب مختلف ممالک کے زُعماء پاکستان تشریف لا رہے ہیں۔ 15اور 16اکتوبر کو اسلام آباد شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہوں کی میزبانی کرے گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں پاکستان، بھارت، چین، روس، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ازبکستان اور ایران شامل ہیں۔ ان کے علاوہ، تین نگران ریاستیں ہیں افغانستان، بیلاروس،منگولیا۔ اور چھ مبصر ممالک ہیں آرمینیا،آذربائیجان کمبوڈیا،نیپال ،سری لنکا اور ترکی۔
اس سمٹ میں روس اور چین کے وُزراء اعظم بھی شریک ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس موقع پر چینی وزیر اعظم 14 سال بعد اور بھارت کے وزیر خارجہ 9 سال بعد پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھیں گے۔ آخری بار دسمبر 2015 میں سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کا دورہ کیا تھا، جب وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لاہور میں غیر متوقع طور پر رکنے سے، چند روز قبل پاکستان آئی تھیں۔
واضح رہے کہ بھارت کے موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ ان کا دورہ بنیادی طور پر شنگھائی تعاون تنظیم کے سمٹ میں شرکت کے لیے ہے نہ کہ پاک بھارت تعلقات پر گفتگو کرنے کے لیے۔
اس سمٹ کا مقصد رکن ممالک کے درمیان تعاون کو مزید مستحکم کرنا اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر گفتگو کرنا ہے۔ اس میں شریک ممالک اقتصادی روابط کو فروغ دینے کے حوالے سے گفتگو کریں گے، خاص طور پر تجارت اور سرمایہ کاری کے اقدامات پر غور کیا جائے گا ۔
دوسری طرف پاکستانی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے جو کہ سمٹ کی اہمیت کو متاثر کر سکتا ہے۔
کئی سالوں کے بعد پاکستان ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ کے تحفظ اور اس کی کامیابی کیلیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔اسلام آباد میں غیر معمولی حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔اور وفاقی حکومت نے اسلام آباد اور جُڑواں شہر راولپنڈی میں تین روزہ عام تعطیل کا اعلان بھی کردیا ہے۔