آج ریاض میں واقع سعودی وزارت دفاع کے ہیڈ آفس میں سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے اٹلی اور یورپ کی 20 سے زیادہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے چیف ایگزیکوز کے ساتھ ایک اہم میٹنگ کی ہے۔
سعودی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ وہ باقی شعبوں کے ساتھ ساتھ اسلحہ سازی میں بھی خود مختاری کی طرف پیش قدمی کے خواہاں ہیں۔ اور اس سلسلے میں جدید سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور تمام خلیجی ممالک اپنی سیکیورٹی اور تحفظ کے لیے امریکہ، روس، برطانیہ، چین اور جاپان سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدتے ہیں۔ اور اس خریداری پر خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔
ماضی قریب میں صرف سعودی عرب امریکہ سے سالانہ 10 بلین ڈالرز کا اسلحہ خریدتا رہا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امریکی اور سعودی تعلقات کی بہتری کی بڑی وجہ بھی یہ ہے کہ سعودی عرب امریکی اسلحے کا ایک بڑا خریدار ہے۔
تاہم حالیہ امریکی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ قدرے سرد مہری رہنے کی وجہ سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دو سال پہلے امریکی جریدے بلومبرگ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم امریکی فیصلوں کے پابند نہیں ہیں، ہم بس دوست ہیں۔
شہزادے نے واضح کیا تھا کہ امریکہ ہمیں اسلحہ دیتا ہے تو اس کی خطیر قیمت ہم سے وصول کرتا ہے۔
بعد ازاں سعودی عرب نے اپنا رجحان چین اور روس کی طرف کرلیا تھا جسے امریکہ نے واضح طور پر محسوس کیا تھا۔
خطے میں سیکیورٹی معاملات اور اپنے تحفظ کے لیےسعودی عرب کو امریکی، روسی، برطانوی اور چینی اسلحے پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ سعودی عرب اپنی سیکیورٹی فورسز کو جدید اسلحہ اور سامانِ حرب فراہم کرنے میں مکمل دلچسپی رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سعودی حکمران اب باقی شعبوں کے ساتھ ساتھ اسلحہ سازی کی صنعت کی طرف بھی غور کر رہے ہیں۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ملکر جدید فوجی مصنوعات اور اسلحے کی مینوفیکچرنگ اپنے ہاں کی جائے۔
اس سلسلے میں خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایات پر سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے آج یورپ اور اٹلی کی 20 سے زیادہ اسلحہ ساز کمنیوں کو ریاض میں مدعو کیا۔
یہ کمپنیاں فوجی مصنوعات سے وابستہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل ہیں، سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے ان کمپنیوں کے سی ای اوز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور تفصیلی ملاقات کی۔