امریکی صدر جو بائیڈن کی زیر نگرانی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد، توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ غزہ میں بھی کوئی جنگ بندی کا معاہدہ ہوجائے گا۔
حماس کی موجودہ سیاسی قیادت نے بھی اپنی شرائط پر جنگ بندی کا عندیہ دیا ہے تاہم ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اپنے ملک کی جانب سے امید ظاہر کی ہے کہ لبنان میں جنگ بندی غزہ تک پھیل جائے گی۔
مصر اور جورڈن کے وزرائے خارجہ نے بھی غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کو ضروری قرار دیا ہے۔ یورپی ممالک خصوصاً ناروے اور سکاٹ لینڈ نے غزہ میں انسانی امداد اور ریسکیو کے کاموں میں رکاوٹوں کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ امید ظاہر کی جا رہی کہ اگر لبنان اور اسرائیل کے درمیان 27 نومبر کو ہونے والا امن معاہدہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کا اگلا مرحلہ غزہ کا امن معاہدہ ہوگا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ روز ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ آنے والے دنوں میں امریکہ ترکیہ ، مصر، قطر، اسرائیل اور دیگر کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کی کوشش کرے گا۔
انھوں نے لکھا کہ ہماری کوشش ہوگی ہم یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کے غزہ پر اقتدار کے بغیر جنگ کے خاتمے کے لیے کسی حتمی نتیجے تک پہنچیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتلایا کہ حماس کے اقتدار کے بغیر غزہ میں قیام امن کیسے ممکن ہوگا۔
حماس جنگ بندی اور امن معاہدے کے لیے تیار ضرور ہے لیکن وہ کسی نہ کسی درجے میں غزہ پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ لیکن اسرائیل غزہ میں حماس کا کنٹرول نہیں چاہتا۔
صدر جوبائیڈن سمجھتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور حماس کو غزہ میں امن معاہدے کے لیے قائل کرنے کی ایک کوشش کریں گے۔ قطر نے امریکی صدر کی کوششوں کو سراہا اور اسے خطے میں امن کے لیے مثبت کردار قرار دیا ہے۔