امریکہ سمیت دنیا بھر میں آج "بلیک فرائیڈے” منایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں مقدس قرار دیے گئے دن کو "بلیک” کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا یہ نام اتفاقی طور پر مشہور ہوگیا ہے یا اسے اہتمام کے ساتھ رکھا گیا ہے؟ یاد رہے کہ خلیجی ممالک میں اسے "وائٹ فرائیڈے” کہا جاتا ہے۔
بہت سے لوگ اس دن کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ وہ بھلے کچھ خریدنا چاہیں یا نہ خریدنا چاہیں لیکن "بلیک فرائیڈے” کے نام اور دن سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
بلیک فرائیڈے ایک امریکی روایت ہے جو اب ایک عالمی ٹرینڈ بن چکی ہے۔ دنیا بھر میں ہر جگہ ،نومبر کے چوتھے جمعے کو دکاندار اور ریٹیلرز اپنی اشیاء اور مصنوعات کی قیمتیں کم کرکے، خریداروں کو راغب کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس دن سال کے باقی دنوں کی بنسبت زیادہ خریداری کی جاتی ہے۔
بلیک فرائیڈے کے موقع پر امریکہ میں عام چھٹی ہوتی ہے اور لوگ خوب شاپنگ کرتے ہیں۔ لیکن اس اصطلاح یعنی "بلیک فرائیڈے” کی ابتدا کا، خریداری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اُنیسویں صدی کے آخر تک، اس اصطلاح کو امریکی بازاروں میں تجارتی خسارے کے حوالے سے یاد کیا جاتا تھا۔ لیکن 1980ء کے بعد، اس دن کو چیزوں کو سستا کرکے بیچنے اور منافع حاصل کرنے کے لیے مختص کردیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ دن امریکہ میں بڑے پیمانے پر رعائیتی ڈیلز اورخریداروں کے ہجوم کی شکل اختیار کرگیا۔
امریکہ سے شروع ہوکر، یہ دن، دیگر ممالک اور براعظموں میں بھی پھیل گیا ہے۔ اس کے بعد سائبر منڈے بھی ایک اصطلاح کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن جو پذیرائی بلیک فرائیڈے کو حاصل ہوئی وہ سائبر منڈے حاصل نہیں کر سکا۔
بلیک فرائیڈے میں خریداری کا تناسب ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی سافٹ ویئر کمپنی سیلز فورس کی ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر صارفین نے 2023 میں بلیک فرائیڈے کے دوران 70.9 ارب ڈالرز خرچ کیے جو کہ 2022 کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ تھے۔
تجارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دن خریداری کرتے ہوئے بھی محتاط رہیں کیونکہ یہ دن بھی اب ایک تجارتی جھانسہ بنادیا گیا ہے۔ دکاندار اور ایٹیلرز کچھ ہفتے پہلے چیزوں کے ریٹس بڑھا کر، اِس دن ریٹس کم کرکے بیچ رہے ہوتے ہیں۔ در اصل اشیا کی قیمتیں وہی پرانی ہوتی ہیں۔