قطر نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی سے پیچھے ہٹ رہا ہے کیونکہ دونوں فریق جنگ بندی کے لیے آمادہ نہیں ہو رہے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم کو ممکن بنا لیں گے لیکن اب شاید ہمیں لگتا ہے کہ ایسا جلدی ممکن نہیں ہے۔
قطری وزیر مملکت برائے امور خارجہ سلطان بن سعد المریخی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ قطر نے امریکی دباؤ کے تحت حماس کی سیاسی لیڈرشپ کو دوحہ میں قائم اس کا دفتر بند کرنے کو کہا ہے۔
کچھ روز قبل قطری ذرائع نے حماس کے دفتر بند کرنے کی خبروں کی تردید بھی کی ہے۔
مشرق وسطی میں قائم قدرے چھوٹی مگر دولت مند ریاست، قطر نے بارہا کوشش کی ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان کوئی امن معاہدہ ہو جائے لیکن فریقین مذاکرات کے لیے تیار ہی نہیں ہو رہے۔
قطر ماضی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی مذاکرات اور امن معاہدوں میں ثالثی کا کامیاب کردار ادا کرچکا ہے۔ جس کے نتیجے میں امریکی اور اتحادی فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء ہوا تھا اور طالبان کو پر امن اقتدار کی منتقلی کا کام مکمل کیا گیا تھا۔
اسی طرح قطر نے 2023ء میں امریکہ اور ایران کے درمیان بھی کامیاب رابطہ کار اور ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا اہم معاملہ طے پایا تھا۔
تاہم حماس اور اسرائیل کے درمیان قطر کی ثالثی کو تاحال کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ پچھلے سال نومبر میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی تھی لیکن اس کے بعد کی صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہے۔