غزہ میں یحیی سنوار کی موت کے بعد حماس کا ذکر ایک بار بھر زبان زد عام ہے۔ حماس کیا ہے؟ اسے کس نے اور کیوں قائم کیا تھا؟ اس کے اہداف کیا تھے؟ قیادت کون کر رہا تھا؟ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ یحیی سنوار نے حماس کو ایک جنگی قوت میں تبدیل کردیا تھا۔ تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ حماس کب اور کیوں قائم ہوئی تھی؟
حماس کا آغاز کب ہوا؟
حماس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین اور ان کے ساتھی عبد العزیز رنتیسی نے ملکر رکھی۔ شیخ احمد یاسین کی تعلیم و تربیت قاہرہ میں ہوئی، وہ جسمانی کمزوری کے باوجود مزاحمتی مزاج کے حامل تھے۔ مصر میں تعلیم کے دوران وہ اخوان المسلمین کے قریب اور اس سے متاثر تھے۔ وہ 2004 میں ایک گن شپ ہیلی کاپٹر حملے میں قتل کردیے گئے تھے۔
احمد یاسین نے اپنی ایک تقریر میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ 2025 تک اسرائیل کا وجود دنیا کے نقشے سے ختم کردیا جائے گا۔ در اصل حماس کا یہ بنیادی منشور اور نظریہ بھی ہے کہ اسرائیل کو ختم کیا جائے گا اس کا وجود کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان کبھی مفاہمت نہیں ہوسکی۔
شیخ احمد یاسین اخوان المسلین اور ایرانی حکومت کے بہت قریب تھے اور دونوں کو فلسطین کے لیے مخلص اور نجات دہندہ سمجھتے تھے، انھیں اخوان اور ایران کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی۔
حماس کی شدت پسندی اور فلسطین کی تقسیم
اسرائیل کے ساتھ مسلسل محاذ آرائی کے بعد عرب ممالک اور فلسطینی قیادت نے اوسلو میں ایک امن معاہدہ کیا۔ جس کے ایک فریق کے طور پر اسرائیل جبکہ دوسرے فریق کے طور پر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے شمولیت کرتے ہوئے تنازعے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی حامی بھری اور امن معاہدہ کرلیا۔
تب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے صدر یاسر عرفات ہوا کرتے تھے جنھیں اس فیصلے اور معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز کے ہمراہ امن کا نوبل پرائز بھی دیا گیا تھا۔ حماس جس کی بنیاد 1987 میں رکھی گئی تھی، اس نے یاسر عرفات اور فلسطینی حکومت کو اوسلو امن معاہدے پر آڑے ہاتھوں لیا اور شدید اختلاف کیا۔
فلسطین میں اس دوران کچھ اور شدت پسند تنظیمیں بھی متحرک رہیں جن میں فتح تحریک کی اقصیٰ برگیڈ، حماس، حرکۃ القدس اور اسلامی جہاد شامل ہیں۔ حکومت اگرچہ یاسر عرفات کے پاس تھی لیکن اندرونی تقسیم نے فلسطین کی آزادی کے کاز کو کافی کمزور کردیا تھا۔ ایک طرف حماس نے اسرائیل پر حملے شروع کردیے تھے تو دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کردیا تھا۔
فلسطین کے پارلیمانی انتخابات اور حماس کی جیت
پھر 2004 میں یاسر عرفات کے بعد محمود عباس فلسطین اتھارٹی کے صدر بن گئے اور اپنے طور پر منتشر جماعتوں کو یکجا کرنے لگے لیکن حماس نے ان کی مخالفت کی۔ 2006 میں فلسطین کے پارلیمانی انتخابات ہوئے جن میں حماس کو خاطر خواہ کامیابی ملی۔
تاہم اقتدار کی پر امن منقلی کی بجائے حماس کی لیڈرشپ نے سخت مزاجی سے غزہ کا کنڑول حاصل کرلیا۔ اور فتح تحریک کو وہاں سے نکال دیا۔ محمود عباس نے اسے بغاوت قرار دیا جبکہ حماس نے محمود عباس پر سازش کا الزام لگایا۔
اس چپقلش سے فلسطین کے اندر بڑی تقسیم پیدا ہوگئی۔ ایک طرف محمود عباس کی فلسطین اتھارٹی کی حکومت بن گئی جس کے پاس مغربی علاقے ہیں جبکہ دوسری حماس کی لیڈرشپ تھی جس کے پاس اب تک غزہ کا کنڑول رہا ہے۔ تاہم 7 اکتوبر کے حملوں بعد اب غزہ کے اکثر علاقوں پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہوگیا ہے۔
غزہ میں حماس کی حکومت کیا کرتی رہی؟
غزہ، دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک علاقہ رہا ہے۔ یہاں کی آبادی نے تقریباً محاصرے میں ہی جینا سیکھا تھا اور محاصرے میں ہی شہید ہوگئی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر غریب رہے اور بیرونی امداد پر گزارہ کرتے رہے۔ حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال کر اسرائیل کے ساتھ مزاحمت کو مزید تیز کردیا۔ سوڈان اور مصر کے راستوں سے حماس کو ایرانی راکٹس اور اسلحے کی ترسیل جاری رہی اور حماس اسرائیل کے خلاف برسرپیکار رہی۔
حماس نے ایک مسلح گروپ تشکیل دے رکھا ہے جسے عزالدین القسام برگیڈ کہا جاتا ہے جو اسرائیل پر راکٹ حملوں کے علاوہ خود کش بمباری بھی کرتا ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ ابو عبیدہ ہیں جو کہ حالیہ جنگ کے دوران کافی مشہور ہوگئے ہیں۔
جیسا کہ اوپر کی سطور میں بھی بتلایا گیا ہے کہ حماس کے منشور میں اسرائیل کا مکمل خاتمہ لکھا ہے اسی لیے حماس وقتاً فوقتاً اسرائیل پر راکٹ حملوں کے علاوہ وہ تمام جنگی کاروائیاں کرتی رہی ہے جس کی وہ استعداد اور صلاحیت رکھتی ہے۔
حماس شروع سے ہی خطے میں ایرانی سر پرستی میں کام کرتی آئی ہے۔ اسے لبنان کی حزب اللہ، یمن کی حوثی تنظیم، عراق کی شیعہ تنظیم حشد شعبی، شام کی بشار حکومت اور خطے کی تمام شیعہ عوام کی حمایت حاصل رہی ہے۔ سوڈان کے عمر البشیر بھی فلسطین کاز کے لیے حماس کی مدد کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر حماس کے لیے ایرانی اسلحے کی ترسیل میں انھوں نے حماس کا کافی ساتھ دیا تھا۔
حماس کی اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جھڑپیں
واضح رہے کہ 1993 کے اوسلو معاہدے کے بعد سے ہی حماس نے اسرائیل کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا تاہم اقوام متحدہ کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق 2006 میں غزہ کا کنڑول حاصل کرنے کے بعد حماس نے حالیہ 7 اکتوبر سے پہلے تک اسرائیل کے ساتھ 4 بڑی جھڑپیں یا لڑائیاں لڑی ہیں۔
پہلی جھڑپ دسمبر 2008 سے جنوری 2009 تک ہوئی۔ دوسری جھڑپ نومبر 2012 سے دسمبر 2012 تک ہوئی۔ تیسری جھڑپ جولائی 2014 سے اگست 2014 تک ہوئی۔ چوتھی جھڑپ مئی 2021 سے جون 2021 تک ہوئی۔ اور پھر 7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصیٰ کے نام سے غزہ کے ملحقہ اسرائیلی علاقوں اور اس کے دار الحکومت تل ابیب پر مسلح حملے کیے گئے۔
حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ اور وہ شروع سے ہی فلسطینی علاقوں پر مسلسل قبضے کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن خطے میں ایرانی پراکسی کے طور پر حماس کی سرگرمیاں بھی شہری طرز حیات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔
حماس نے اپنے ہی فلسطینی بھائیوں اور آزادی کی دوسری تنظیموں سے محاذ آرائی کی اور ایران کے گُن گائے، حماس کے کردار کو غزہ سے باہر کے فلسطینیوں میں مشکوک مانا جاتا ہے۔ حماس کے راہنماوں نے ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو القدس کا ہیرو قرار دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کا حملہ بھی خطے میں ایرانی سیاسی کردار کو مضبوط بنانے کے لیے ایرانی ایماء پر کیا گیا تھا۔ کیونکہ امریکی حکومت کے توسط سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان نارملائزیشن پر کام ہو رہا تھا۔ سعودی عرب، جوبائیڈن انتظامیہ سے فلسطین کے مقبوضہ علاقے واپس کروانے کے بدلے میں اسرائیل کے ساتھ کسی حد تک سفارتی تعلقات کے لیے سوچ بچار کر رہا تھا۔
اس سے خطے میں اور خاص طور پر فلسطین میں قیام امن کی سعودی کوششیں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر ایسا ہوجاتا تو خطے سے ایرانی اثر رسوخ تقریباً ختم ہوجاتا۔ سو ، حماس کے ساتھ حزب اللہ اور حوثیوں کو کھڑا کر کے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کروا دیا گیا۔ جس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی بھی توقع سے بالا تر ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کو گلیمرائز کیا گیا
اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کو گلیمرائز کیا گیا۔ فوری طور پر حماس کے سوشل میڈیا ونگ نے حملوں کی ویڈیوز بنا کر وائرل کیں۔ الجزیرۃ اور ایرانی میڈیا نے اسے امت مسلمہ کی آخری اور فیصلہ کن جنگ قرار دے دیا۔ طوفان الاقصیٰ کے ٹرینڈز چلائے گئے۔ اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تصاویر کو فاتحانہ نشر کیا گیا۔ فوری طور پر اسماعیل ہنیہ نے مسلم ممالک سے اپیل کی کہ وہ اسرائیل کو للکاریں۔
ایک ایسی فضا بنادی گئی کہ مسلمان ممالک بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جائیں تو کدھر جائیں۔ دوسری طرف ایران کی پوزیشن یہ بنادی گئی کہ صرف وہی ایک ملک ہے جو فلسطینی عوام کا حامی و مدد گار ہے باقی تمام مسلمان ملک اسرائیل کے ساتھ مل چکے ہیں۔
چونکہ یہ حملہ نہ تو کسی تیاری کے ساتھ کیا گیا تھا اور نہ ہی کسی مسلمان ملک کو اعتماد میں لیکر کیا گیا تھا بلکہ صرف خطے میں اہرانی کردار کو باقی اور زندہ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا، اس لیے کسی بھی دوسرے مسلمان ملک نے سوائے امدادی سامان کے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کی۔
حماس کے 7 اکتوبر کے حملے بعد ہونے والا نقصان
جواب میں اسرائیل نے اب تک 45،000 نہتے فسلطینی شہریوں کو شہید کردیا ہے۔ 20،000 کے قریب لوگ لاپتہ ہیں، غالب امکان یہ ہے کہ وہ عمارتوں کے ملبے تلے تب گئے ہیں۔ 20 لاکھ سے زیادہ لوگ ہجرت کرکے صحرائے سینا میں کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں۔ 10،000 سے زیادہ معصوم بچے شہید ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں مسجدیں شہید کردی گئی ہیں۔ اور غزہ کے اکثر حصے پر اسرائیل کا کنٹرول ہوچکا ہے۔
حماس کی ساری لیڈر شپ ختم کردی گئی ہے۔ پہلے اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں کو غزہ میں اور بعد میں خود انھیں ایران میں حملہ کرکے قتل کردیا گیا ہے۔ ان کے اتحادی حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو بیروت میں حزب اللہ کے خفیہ ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرکے ختم کردیا گیا ہے۔ ان کے بعد ان کے جانشین ہاشم صفی الدین کو بھی قتل کردیا گیا ہے۔ اور اب غزہ کے رفح بارڈر کے قریب ایک گھر میں موجود حماس کے نئے سربراہ یحیی سنوار کو بھی قتل کردیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حماس، حزب اللہ یا ایران نے پچھلے ایک سال کے دوران اسرائیل کا زیادہ نقصان کیا ہے یا معصوم فلسطینیوں کا؟ ایران جو اس خطے میں ایک ریجنل کولیشن کا سربراہ تھا اب خود جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے، اور کہہ رہا ہے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ فلسطینیوں کا اتنا بڑا نقصان کروانے کے بعد اگر ایران جنگ نہیں چاہتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطینی بچے جنگ چاہتے تھے؟ فلسطینی عورتیں جنگ چاہتی تھیں؟
ایک ایسا نقصان ہوچکا ہے جو مسلمانوں کو صدیوں تک رُلائے گا۔ ایران کے مشرق وسطی میں سیاسی خدشات کو دور کرنے کے لیے معصوم فلسطینیوں سے ان کی دنیا چھین لی گئی ہے۔ ہنستے بستے گھر اُجاڑ دیے گئے۔ سب کچھ تباہ و برباد کروا لیا گیا۔ کچھ دن پہلے دیا گیا یحیی سنوار کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ "ایران نے مزاحمت کے لیے مطلوبہ مدد فراہم نہیں کی” اس صورتحال پر اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ توقع سے بہت زیادہ اور بہت بالاتر ہے۔