اس جنگ کا اگر کوئی اور نام ہوتا تو یہ مصنوعی ذہانت کی جنگ کہلاتی، اسرائیل ایسی ایسی جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے کہ ذہانت بھی سوچنے پر مجبور ہو جائے۔
اسرائیلی انٹیلیجنس کو اطلاع ملی تھی کہ حسن نصراللہ فلاں تاریخ کو حارۃ حریک میں اپنی پارٹی کے ہیڈکوارٹرز جائیں گے تاکہ کچھ قائدین کے ساتھ ملاقات کر سکیں۔
یہ ہیڈکوارٹر 14 تہہ خانوں پر مشتمل تھا اور اس کے اوپر ایک رہائشی عمارت تھی، کس عام آدمی کو تو بالکل خبر نہیں تھی کہ اس عمارت کے نیچے کتنے اور کہاں تک تہہ خانے ہیں۔
جوں ہی حسن نصر اللہ اس عمارت کے نیچے موجود تہہ خانوں میں پہنچے، اسی وقت ایک اسرائیلی طیارہ "ایف- 35” مشن کے لئے بھیجا گیا۔
اس طیارے نے 10 ایم کے 84 بم نہایت برق رفتاری سے اس عمارت کے اوپر پھینکے، ہر ایک بم کا وزن 2000 پاؤنڈ تھا، اور یہ بم 50 سے 70 میٹر تک زیر زمین محفوظ مقامات کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزید یہ کہ ان بموں میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ زیر زمین ایسے ارتعاشات و تحرکات پیدا کرتے ہیں جن سے نہ صرف ہدف تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔
بلکہ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان بموں میں ہدف کے ارد گرد موجود ہر طرح کی زندگی کو ختم کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔
یہ وہ عجیب و غریب ٹیکنالوجی ہے جس کی تاحال کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔
چنانچہ حزب اللہ کے حارہ حریک والے خفیہ ہیڈ کوارٹرز کو انہی جدید بموں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ان بموں نے اس عمارت اور اس کے تہہ خانوں کو اس قدر شدید نقصان پہنچایا ہے کہ پوری عمارت اور تہہ خانے کئی فٹ زیر زمین دھنس کر رہ گئے ہیں۔
جنگی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا طیارہ حادثہ ہو، اسماعیل ہنیہ کی پر اسرار موت ہو، بیروت میں ہونے والے پیجر حملے ہوں یا حسن نصر اللہ کا حیران کن قتل، سب کے پیچھے مصنوعی ذہانت کا عنصر پایا جاتا ہے۔